تہران،9مئی (ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)اگرچہ ایرانی صدر حسن روحانی پر نظام کے مخالفین کو موت کے گھاٹ اتارنے پر اکسانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے اور روحانی کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ایرانی صدور کے درمیان روحانی انسانی حقوق کے حوالے سے بدترین تاریخ کے حامل ہیں.. تاہم اس کے باوجود روحانی نے صدارتی انتخابات میں اپنے حریفوں میں سے دو شخصیات محمد باقر قالیباف اور براہیم رئیسی پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے گزشتہ 38 برسوں کے دوران ایرانی شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کی کارروائیوں میں شریک ہونے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ایران کے وسطی شہر ہمدان میں اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں خطاب کرتے ہوئے روحانی کا کہنا تھا کہ قوم نے گزشتہ انتخابات میں تشدد کو مسترد کر دیا تھا اور آئندہ انتخابات میں بھی عوام ایسا ہی کریں گے۔ایران میں اصلاح پسند اور اعتدال پسند گروپوں کی جانب سے انتخابی مہم کے دوران مرشد اعلی علی خامنہ ای کے قریبی امیدوار ابراہیم رئیسی کو اس بات پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ وہ 1988 میں سزائے موت کی مشہور اجتماعی کارروائیوں میں شریک رہے۔ ان کارروائیوں پر عمل درامد خمینی کے براہ راست احکامات کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔
ایک طرف روحانی کی جانب سے رئیسی پر سیاسی قیدیوں کے قتل عام میں شرکت کا الزام عائد کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب 1988 میں اجتماعی سزائے موت کے احکامات جاری کرنے والی تین رکنی کمیٹی میں شامل شخصیت مصطفی پور محمدی اس وقت روحانی کی حکومت میں وزیر انصاف کے منصب پر فائز ہیں۔ادھر روحانی کے مخالفین نے 1980ء کی دہائی میں ایک ایرانی اخبار میں شائع ہونے والی تصویر جاری کی ہے جس میں روحانی خود اس امر کی تصدیق کر رہے ہیں کہ دارالحکومت تہران کے وسط میں نماز جمعہ کے مرکز کے احاطے میں نظام کے مخالفین کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔2003ء میں امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والی ایرانی خاتون شیریں عبادی نے اپنے تبصرے میں کہا تھا کہ حسن روحانی اور ابراہیم رئیسی سمیتصدارتی انتخابات کے تمام چھ امیدواروں کا انسانی حقوق کے حوالے سے ریکارڈ منفی اور ناقابل قبول ہے۔